مِرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں تیرا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تیری
نہ تیری مدح ہے ممکن میرے خیالوں سے
تو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے
تیرا پیام محبّت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے
یہ افتخار ہے تیر اکہ میرے عرش مقام
تو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے
مگر یہ مفتی و واعظ یہ محتسب یہ فقیہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے
خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے
نہ میری آنکھ میں کاجل نہ مشکبو ہے لباس
کہ میرے دل کا ہے رشتہ خراب حالوں سے
ہے ترش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کر نے والوںسے
میں بے بساط سا شاعر ہوں پر کرم تیرا
کہ با شرف ہوں قبا و کلاہ والوں سے
Poet: احمد فرازؔ
0 Comments